Wednesday, January 23, 2013

peotry but dont read

salam and hello

اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا

ساری گلی سنسان پڑی تھی باد ِ فنا کے پہرے میں
ہجر کے دلان اور آنگن میں بس ایک سایہ زندہ تھا

وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی
اپنے ادنر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا

تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی، وعدے اور پھر دن گننا
آنا تھا جانے والے کو، جانے والا زندہ تھا

دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی
تھا آباد محلہ سارا ہر دروازہ زندہ تھا

پیلے پتوں کی سہ پہر کی وحشت پرسہ دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس ایک کوا زندہ تھا

No comments:

Post a Comment